آپ نے یہ تجویز بھی پسند نہیں کی اور فرمایا: اس کا تعلق یہودیوں سے ہے ۔

پھر آپ کو ’’ ناقوس ‘‘ کے بارے میں کہا گیا تو ا ٓپ نے فرمایا : یہ نصاریٰ کی علامت ہے ۔

عبداللہ بن زید کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصوبے کی فکر تھی ۔ اس نے خواب میں اذا ن کا مشاہدہ کیا ۔ صبح اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاکر آپ کو اس کی خبر دی اور کہا : یا رسول اللہ! میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ کسی نے آ کر مجھے اذان سکھائی ۔

روای کہتا ہے : اس سے قبل عمر بن خطاب نے بھی یہی خواب دیکھا تھا لیکن موصوف نے اسے بیس دنوں تک مخفی رکھا۔ اس کے بعد رسول اللہ کو بتا یا تو آپ نے فرمایا : تو نے مجھے کیوں نہیں بتا یا ؟ بولے : عبداللہ بن زید نے مجھ پر سبقت کی تو مجھے شرم آگئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اٹھو اور عبداللہ بن زید تمہیں جو حکم دے وہ کرو ۔ پس بلال نے اذان دی ۔ ابو بشر کہتا ہے : ابو عمیر نے مجھے خبر دی کہ انصار کے خیال میں اگر اس دن عبداللہ بن زید بیمار نہ ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے مؤذن بنا دیتے ۔

۲ ۔ابو داؤد نے محمد بن منصور طوسی سے نقل کیا ہے کہ اس نے یعقوب سے ، اس نے اپنے والد سے ، اس نے محمد بن اسحاق سے ، اس نے محمد بن ابراہیم ابن حارث تیمی سے ، اس نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبد ربہ سے اور اس نے ابو عبداللہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس تیار کرنے کا حکم دیا تا کہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لئے جمع کیا جا سکے تو میں نے ( خواب میں ) ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا ۔ میں نے کہا : اے بندہ خدا ! کیا اس ناقوس کو بیچو گے ؟ اس نے کہا : تم اس سے کیا کرو گے ؟ میں نے کہا : ہم اس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں گے ۔ اس نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز کی نشاندہی نہ کروں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ اس نے کہا : یوں کہو :

الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر،الله اکبر،اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله ،حی علی الصلاة، حی علی الصلاة ،حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح ، الله اکبر،الله اکبر ، لا اله الله الا الله، لا اله الله الا الله ۔

اس کے بعد وہ مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا پھر کہنے لگا : تم نماز کی اقامت یوں کہو :

الله اکبر، الله اکبر، اشهد ان لا اله الا الله،اشهد ان محمدا رسول الله، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح ،قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة ، الله اکبر،الله اکبر، لا اله الله الا الله ۔

پھر جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ کے پاس آکر آپ کو اپنا خواب سنایا ۔ آپ نے فرمایا : انشا ءاللہ یہ خواب سچا ہے ۔ پس بلال کے ساتھ جاؤ اور اسے وہ سکھاؤ جو تم نے دیکھا ہے تا کہ وہ اسی کےمطابق اذان دے ۔ اس کی آواز تجھ سے بہتر ہے ۔

پس بلال کے ساتھ چلا ۔ پھر میں اسے سکھا تا گیا اور وہ اذان دیتا گیا ۔ عمر بن خطاب نے اپنے گھر میں اسے سنا چنانچہ وہ اپنی چادر کھینچتے ہوئے نکلے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے ۔(۱)

ابن ماجہ نے اسے درج ذیل دو سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے :

۳ ۔ ہم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے بیان کیا کہ اسے محمد بن سلمہ حرا نی نے ، اسے محمد بن اسحاق نے ، اسے محمد بن ابرا ہیم تیمی نے ، اسے محمد بن عبد اللہ بن زید نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بگل ( کے استعمال ) کا ارادہ کیا پھر آپ کے حکم سے ناقوس تیار کیا گیا ۔ تب عبد اللہ بن زید نے خواب دیکھا....

۴ ۔ ہم سے محمد بن خالد بن عبداللہ واسطی نے نقل کیا کہ اسے اس کے والد نے ، اسے عبد الرحمان بن اسحاق نے ، اسے زہری نے ، اسے سالم نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے انہیں نماز کے لئے بلانے کی ترکیب کے بارے میں مشورہ کیا تو لوگوں نے بگل کی تجویز دی لیکن آپ نے یہود سے ( مشابہت ) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا ۔ پھر لوگوں نے ناقوس کی تجویز دی لیکن آپ نے نصاری ( سے مشابہت ) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا ۔ پھر اسی رات ایک انصاری نےجس کا نام عبد اللہ بن زید تھا اور عمر بن خطاب نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا ۔

زہری کہتا ہے : بلال نے نماز صبح کی اذان میں الصلاة خیر من النوم کا اضا فہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تا ئید کی۔(۲)

اسے تر مذی نے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے :

۵ ۔ ہم سے سعد بن یحیی بن سعید اُموی نے بیا ن کیا کہ اسے اس کے والد نے ، اسے محمد بن اسحاق نے ، اسے محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے ، اسے محمد بن عبد اللہ بن زید نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ جب صبح ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اس خواب کے بارے میں بتا یا ۔الخ

۶ ۔ تر مذی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابراہیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے جو اس حدیث سے زیادہ کامل اور زیادہ طویل ہے ۔ اس کے بعد ترمذی کہتے ہیں : عبد اللہ بن زید سے مراد ابن عبد ربہ ہے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اس نے اس واحد حدیث جو اذان کے بارے میں ہے کے علاوہ رسول اللہ سے کوئی اور صحیح روایت نقل کی ہو ۔(۳)

یہ وہ روایات ہیں جنہیں سنن کے مو لفین نے نقل کیا ہے ۔ ان سنن کا شمار صحاح ستہ میں ہو تا ہے ۔ چونکہ ان معروف سنن کی اہمیت دیگر کتب مثلا سنن دارمی ، دار قطنی، طبقات ابن سعد اور سنن بیہقی کی روایات سے زیادہ ہے اس لئے ان کی خاص حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ان معروف سنن کی رویات کو دیگر کتب میں مذکور روایات سے جدا کیا منتخب کیا ہے ۔

---حوالہ جات:

۱ ۔ دیکھئے سنن ابو داؤد ،ج ۱ ،ص ۱۳۴ ۔ ۱۳۵ ،حدیث نمبر ۴۹۸ ۔ ۴۹۹ ۔

۲ ۔ دیکھئے سنن ابن ماجہ ،ج ۱ ،ص ۲۳۳ ، باب بدء الاذان ،نمبر ۷۰۷ ۔

۳ ۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج ۱ ،ص ۳۶۱ ، باب ماجاء فی بدء الاذان ،نمبر ۱۸۹ ۔

+  نشر کی تاریخ  Wed 16 Apr 2025ساعت  12:11 PM  ایڈمن  یوسف حسین عاقلی  |